آج جب قاضی فائز عیسیٰ سبکدوش ہو رہے ہیں تو پرانے دوست مخالف بن چکے ہیں لیکن انہوں نے اپنے دور میں ایسے مقدمات نمٹائے جن کی سماعت کرنے کو کوئی تیار نہ تھا۔
اس فیصلے کو لے کر کچھ حلقے تنقید کررہے ہیں کہ اکثریتی ججز نے وہی کام کیا جو کام افتخار چوہدری نے پیپلز پارٹی کی دشمنی میں این آر او کے مقدمہ کا فیصلہ دے کر کیا تھا۔
یہ سچ ہے کہ تین برس پہلے جب وہ اپنی ہی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے تھے تب میڈیا سمیت تمام لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس بننا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
اگر چیف جسٹس صاحب چاہتے تو تمام اداروں کے اپنے اپنے اختیارات استعمال کرنے کے حوالے سے کردار ادا کرسکتے تھے لیکن انہوں نے سب سے اہم اپنے کردار کو رکھا جو بدقسمتی سے دوسرے اداروں میں مداخلت کا کردار تھا۔
جب ججز عدالت میں نمودار ہوئے تو سب حیران رہ گئے کیونکہ اختلافی نوٹ دینے والے 2 جج بھی بینچ میں نہیں تھے اور جن 2 ججوں پر حکومت کی جانب سے اعتراضات کیے گئے تھے وہ بھی عدالت نہیں آئے تھے۔
توہین عدالت کے مقدمات میں پہلی سماعت پر ملزم معافی مانگتا ہے اس کے بعد بھی عدالت کا صوابدید ہے کہ معاف کرے یا نہیں، لیکن جو ہوتا ہے وہ چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوتا ہے